Tuesday 21 February 2017

امام بخاری رحمہ اللہ

0 comments

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

امام بخاری کا زہد، ان کی سیرت اور ان کے فضائل وشمائل:​


امام بخاری کے والد ماجد اسماعیل بن ابراہیم نے کسب تجارت میں کافی مہارت حاصل کرلی تھی۔ وہ بڑے سوداگر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک متقی اور پرہیزگار انسان تھے۔ چنانچہ موت کے وقت انہوں نے فرمایا: میں اپنے مال کے اندر ایک درہم بھی حرام کا نہیں پاتا۔ اور کوئی درہم مال میں مشتبہ نہیں۔ چنانچہ وہ فوت ہوئے تو ان کے ترکہ سے امام بخاری کو کافی مال حاصل ہوا۔ امام بخاری نے اپنا مال کسی کو مضاربت کے طور پر دے دیا۔ اس آدمی نے لین دین میں امام بخاری کے پچیس ہزار درہم غصب کرلیے اور دینے سے انکار کردیا۔ لوگوں نے امام بخاری سے کہا کہ والی کا رقعہ لےکر اس سے یہ درہم وصول کرلیجئے۔ امام بخاری نے والی سے رقعہ لکھوانے سے انکار کردیا اور فرمایا: ’’[font="al_mushaf"]لن ابیع دینی بدنیای۔‘‘ کہ میں اپنے دین کو دنیا کے بدلے فروخت نہیں کروں گا۔ بعد میں اس غریم سے امام بخاری کی صلح ہوگئی۔ صلح اس بات پر ہوئی کہ وہ غریم امام بخاری کو دس درہم ماہانہ ادا کرے گا۔

اس واقعہ سے امام بخاری کا زہد، ورع اور حکمرانوں سے اپنے دین کو محفوظ رکھنے کی صفات ظاہر ہورہی ہیں۔
امام بخاری کے وراق فرماتے ہیں کہ امام بخاری نے فرمایا: میں خود سودا سلف نہیں خریدتا بلکہ کسی آدمی کو پیسے دے دیتا ہوں ، وہ میرے لیے چیزیں خرید لاتا ہے۔ وجہ پوچھنے پر امام بخاری نے فرمایا: میں خود اس لیے نہیں خریدتا کہ خریداری میں کمی زیادتی اور ادھر اُدھر کی باتیں بنانا پڑتی ہیں۔ وراق بخاری کے اس بیان سے امام بخاری کی صاف گوئی، حق معاملگی اور زبان کی حفاظت والی صفات ظاہر ہورہی ہیں۔ غنجار نے اپنی تاریخ میں ابوسعید بکر بن منیر سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ امام بخاری کے پاس کچھ مال آیا۔ ایک پارٹی آگئی۔ اس نے مال خریدنا چاہا اور امام بخاری کو پانچ ہزار درہم نفع دینے کی پیش کش کی۔ امام بخاری نے سودا کل تک ملتوی کردیا۔ دوسرے دن ایک اور پارٹی آگئی۔ اس نے دس ہزار درہم نفع دینے کی پیش کش کی۔ تو امام بخاری نے دس ہزار درہم کی پیش کش کو یہ کہتے ہوئے رد کردیا : انی نویت البارحۃ ان ادفعہا الی الاولین فدفعہا الیہم وقال: الا احب ان انقض نیتی۔
امام بخاری کی سیرت:​

عبداللہ بن محمد صیارفی کا بیان ہے کہ میں ایک دفعہ امام بخاری کے مکان پر تھا۔ امام بخاری کی لونڈی آئی اور گھر میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تو وہ امام بخاری کے سامنے سیاہی کی دوات پر گر پڑی۔ تو امام بخاری نے فرمایا: تو کیسے چل رہی ہے؟ تو اس نے جواب دیا: اذا لم یکن طریق فکیف امشی؟ جب راستہ ہی نہ ہوتو میں کیسے چلوں؟ تو امام بخاری نے فرمایا: اذہبی فقد اعتقتک۔ جا میں نے تجھے آزاد کردیا۔ تو کسی نے کہا کہ اس نے آپ کو غصہ دلایا اور آپ اسے آزاد کررہے ہیں؟ تو امام بخاری نے فرمایا کہ میں نے اپنے آپ کو راضی کرلیا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ میں اس کے آزاد کرنے پر خوش ہوں۔ اس واقعہ سے امام بخاری کا اپنے نفس پر قابو پانا ، غصہ پی جانا اور استغنائے نفس جیسی صفات ظاہر ہورہی ہیں۔
محمد بن ابی حاتم روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم فربر میں تھے۔ امام بخاری نے ایک دن کتاب التفسیر کے سلسلہ میں کافی کام کیا ، حتیٰ کہ آپ تھک گئے او رچت لیٹ گئے۔ کسی نے امام بخاری سے پوچھا: آپ کہا کرتے ہیں: مااتیت شیئا بغیر علم فما الفائدۃ فی الاستلقاء[/font]؟‘‘ کہ بغیر علم کے میں کوئی کام نہیں کرتا، پس آج چت لیٹنے میں کیا فائدہ ہے؟
تو امام بخاری نے جواب دیا کہ یہاں سے سرحد قریب ہے اور آج کافی کام کرنے کی وجہ سے تھک گیا ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ دشمن ہم پر حملہ کردے۔ اس لیے میں آرام کررہا ہوں تاکہ دشمن کے حملے کی صورت میں دفاع یا بچاؤ کی کوئی صورت اختیار کر سکوں۔ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری اس دن جو چت لیٹے ہوئے تھے ، وہ دشمن کے دفاع یا بچاؤ کےلیے لیٹے تھے، حالانکہ اس کا فائدہ تھکاوٹ دور کرنا ظاہر تھا، لیکن وہ اس کو فائدہ نہیں سمجھتے تھے۔
وراق بخاری ہی کا بیان ہے کہ امام بخاری تیر چلانے میں بہت ماہر تھے۔ ان کا نشانہ کبھی خطا نہیں گیا۔ فرماتے ہیں کہ میں جتنا عرصہ امام بخاری کے پاس رہا، صرف دو دفعہ نشانہ خطا ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہم فربر میں تھے کہ ایک دن بندرگاہ والے راستے پر چلے گئے۔ امام بخاری نے تیر چلانے شروع کیے تو سامنے نہر کا ایک پل تھا، اس پل کی میخ کو امام بخاری کا ایک تیر آلگا۔ وہ میخ ٹوٹ گئی۔ امام بخاری اسی وقت چوپائے سے اترے اور تیر چلانے بند کردیے اور مجھ سے کہا: ’’[font="al_mushaf"]یا ابا جعفر! الیک حاجۃ ، فقلت لہ: ما ہی؟ قال: اذہب الی صاحب ہذہ القنطرۃ ، فتقول: انا اخللنا بالوتد فنحب ان تاذن لنا فی اقامۃ بدلہ او تاخذ ثمنہ وتجعلنا فی حل مما کان منا۔[/font]‘‘
کہ ابوجعفر! مجھے تجھ سے ایک کام ہے۔ میں نے کہا: فرمائیے، کیا کام ہے؟ تو امام بخاری نے فرمایا: اس پل کے مالک کےپاس جاؤ اور اس سے کہو کہ اس پل کی میخ کی قیمت وصول کرلو یا ہمیں نئی میخ لگانے کی اجازت دے دو، یا ہمیں ہماری کوتاہی معاف کردو ، ہم نے آپ کا نقصان کیا ہے۔
وراق بخاری فرماتے ہیں کہ میں اس پل کے مالک حمید بن اخضر کے پاس گیا اور امام بخاری کی درخواست اس کے سامنے رکھی تو حمید بن اخضر نےجوا ب دیا کہ میری طرف سے امام بخاری کو جاکر سلام پیش کرنا او رکہنا کہ میری تمام مملوکہ چیزیں آپ پر قربان ہوں۔ ہم نے انہیں یہ نقصان معاف کردیا۔ ابوجعفر فرماتے ہیں کہ میں نے جب امام بخاری کو اس کا جواب سنایا تو امام بخاری بہت خوش ہوئے اور مسرت سے چہرہ چمکنے لگا، جبکہ اس سےقبل افسوس کی وجہ سے ان کا سانس پھولا ہوا تھا۔ اس روز اما م بخاری نے خوش ہوکر تین سو درہم صدقہ کیے اور طلبہ کو پانچ سو حدیثیں سنائیں۔ وراق بخاری کا بیان ہے کہ امام بخاری فرماتے ہیں: ’’ [font="al_mushaf"]لا یکون لی خصم فی الآخرۃ۔[/font]‘‘ کہ آخرت میں مجھ سے کوئی جھگڑا کرنے والا نہ ہوگا۔
تو وراق بخاری فرماتے ہیں کہ یہ بات کیسے صحیح ہوسکتی ہے؟ لوگ آپ کی تاریخ پر اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے فلاں فلاں پر تنقید کی ہے۔ تو امام بخاری نے جواب دیا کہ تاریخ میں نقد رجال کے لحاظ سے میں نے کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کی۔ مزید فرمایا: ’’[font="al_mushaf"]قال النبیﷺ: بئس اخو العشیرۃ۔[/font]‘‘ کہ یہ قبیلہ کا برا فرد ہے۔
وراق بخاری ہی امام بخاری سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ’’[font="al_mushaf"]ما اغتبت احدا قط منذ علمت ان الغیبۃ حرام۔[/font]‘‘ کہ جب سے مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ غیبت حرام ہے، اس وقت سے میں نے کسی کی غیبت نہیں کی۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ امام بخاری جرح تضعیف رواۃ کے سلسلہ میں بڑے محتاط واقع ہوئے ہیں۔ کہ حتی الوسع کسی راوی کے بارے میں کوئی کلمہ نہیں کہتے ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیں گے: ’’[font="al_mushaf"]فیہ نظر، سکتوا عنہ، ترکوہ[/font]‘‘ اس قسم کے الفاظ امام بخاری استعمال کرتے ہیں۔
فائدہ :
ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں کہ امام بخاری جس راوی کے بارے میں فیہ نظر کے لفظ بولیں تو اس راوی کی حدیث ناقابل احتجاج، ناقابل استشہاد اور ناقابل اعتبار ہوتی ہے۔ ایسے ہی میزان الاعتدال کے مقدمے میں لکھا ہوا ہے کہ جس راوی کے بارے میں سکتوا عنہ کے لفظ استعمال ہوں، وہ راوی ضعیف سمجھا جائے گا۔
وراق بخاری ہی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم فر بر میں تھے اور امام بخاری بخاریٰ کی جانب ایک رباط یعنی اصطبل تعمیر کروا رہے تھے۔ امام بخاری کے تعاون کے لیے کافی لوگ جمع ہوچکے تھے۔ امام بخاری خود بھی ان کے ساتھ اینٹیں لاتے تھے۔ میں نے کہا کہ لوگ کافی ہیں ، آپ کو اینٹیں کی کیا ضرورت ہے؟ تو امام بخاری نے جواب دیا کہ میرا کام کرنا ہی مجھے فائدہ دے گا۔ اسی طرح لوگ کام کرتے رہے اور کھانے کے انتظام کےلیے ایک گائے ذبح کی۔ محمد بن ابی حاتم فرماتے ہیں کہ ہم نے فربر جاکر تین درہم کی روٹیاں خریدیں۔ ایک درہم کی پانچ مد روٹیاں تھیں۔ اس طرح درہم کی پندرہ مد روٹیاں ملیں، ساتھ ایک گائے بھی ذبح کی ہوئی تھی۔ کھانے والوں کی تعداد سو سے زیادہ تھی ۔ سب لوگ کھانا کھا چکے، تو پھر بھی روٹیاں بچی ہوئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے کھانے میں برکت کردی۔
وراق بخاری فرماتے ہیں کہ امام بخاری کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ طالب علموں پر بڑا احسان کرتے تھے اور آپ کی سخاوت افراط کی حد کو پہنچ چکی تھی۔ امام بخاری کا اپنا بیان ہے کہ پانچ سو درہم میری یومیہ آمدنی ہے جس کو میں طالب علموں پر خرچ کر ڈالتا ہوں۔ امام بخاری خود بہت کم کھانا کھاتے تھے۔ اور روٹی بلا سالن کھاتے تھے۔ چنانچہ ابوالحسن یوسف بن ابوذر بخاری کا بیان ہے کہ امام بخاری کا قارورہ بعض طبیبوں پر پیش کیا گیا تو انہوں نے دیکھتے ہی کہا: یہ قارورہ عیسائیوں کے پادریوں کے قارورہ سے ملتا جلتا ہے۔ امام بخاری سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: چالیس سال سے سالن نہیں کھایا۔
محمد بن ابی حاتم فرماتے ہیں کہ امام بخاری نے فرمایا کہ میں تعلیم حاصل کرنے کےلیے آدم بن ابی ایاس کے پاس گیا تو زاد راہ ختم ہوگیا ، حتی جعلت اتناول الحشیش، حتی کہ میں نے گھاس کھانی شروع کردی۔ اسی حالت میں میرا تیسرا دن تھا کہ آدمی میرے پاس آیا اور دیناروں کی ایک تھیلی مجھے دی۔
امام ابوعبداللہ حاکم نے مقسم بن سعد سے نقل کیا ہے کہ امام بخاری رات کو رمضان المبارک میں ایک دفعہ قرآن مجید سناتے تھے۔ ہر رکعت میں بیس آیات تلاوت فرماتے۔ اس طرح پورے رمضان میں ایک دفعہ قرآن مجید ختم ہوجاتا اور سحری کے وقت تین راتوں میں قرآن مجید ختم کردیتے۔ اس طرح پورے رمضان میں بیس مرتبہ قرآن مجید ختم ہوجاتا۔ رمضان المبارک کے ایک دن میں ایک دفعہ قرآن مجید ختم کردیتے، اس طرح تیس دفعہ قرآن مجید ختم ہوجاتا۔ تو کل رمضان المبارک میں اکتالیس دفعہ قرآن مجید ختم کرلیتے تھے۔ رمضان المبارک میں امام بخاری کثرت سے تلاوت کرتے تھے۔ وراق بخاری ہی کا بیان ہے کہ امام بخاری رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے، ان تیرہ رکعوں میں ایک وتر ہوتا تھا۔
ابوسعید بکر بن منیر کا بیان ہے کہ ایک دفعہ امام بخاری نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک بھڑ نے آپ کو سترہ مرتبہ ڈسا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا کہ دیکھو مجھے کیا چیز ڈس رہی تھی اور تکلیف دے رہی تھی؟ دیکھا گیا تو ایک بھڑ تھا جس نے سترہ جگہ سے امام بخاری کو ڈسا ہوا تھا ۔ وراق بخاری کی رویت میں ہے، آپ نے فرمایا: ’’[font="al_mushaf"]کنت فی آیۃ فاحببت ان اتمہا۔[/font] ‘‘ کہ میں ایک آیت پڑھ رہا تھا، میں نے چاہا کہ اسے پورا کرلوں۔
اس واقعہ سےامام بخاری کی نماز میں خشوع وسکون والی صفات ظاہر ہورہی ہیں۔
امام بخاری بےحد متواضع تھے۔ وراق بخاری فرماتےہیں کہ ایک روز امام بخاری نے ابومعشر نابینا آدمی سے فرمایا: ’’[font="al_mushaf"]اجعلنی فی حل۔[/font]‘‘ کہ مجھے معاف کردیجیے۔ تو اس نابینا آدمی نے پوچھا: کیا چیز میں آپ کو معاف کردوں؟ تو امام بخاری نے فرمایا: ’’[font="al_mushaf"]رویت حدیثاً یوما فنظرت الیک وقد اجبت بہ وانت تحرک راسک ویدیک فتبسمت من ذلک ، قال: انت فی حل، یرحمک اللہ یا ابا عبداللہ۔[/font]‘‘
کہ میں نے ایک دن حدیث بیان کی، وہ تجھے بھلی معلوم ہوئی۔ میں نے دیکھا : تو اپنا سر اور ہاتھ ہلا رہا تھا، تو میں یہ دیکھ کر مسکرا دیا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ وہ تو نابینا آدمی ہے، اسے کیا معلوم ہے؟ تو اس نابینا نے کہا کہ میں نے آپ کو معاف کردیا۔ اے ابوعبداللہ! اللہ آپ رحم فرمائے۔
تو اس واقعہ سے امام بخاری کی تواضع ظاہر ہوتی ہے کہ ایک نابینا آدمی سے معافی طلب کرتے ہوئے عار محسوس نہیں کرتے۔
امام بخاری مستجاب الدعوات تھے ۔ دعا کرتے تو فوراً قبول ہوجاتی تھی۔ وراق بخاری بیان کرتے ہیں کہ امام بخاری نے فرمایا: ’’[font="al_mushaf"]دعوت ربی مرتین، فاستجاب لی یعنی فی الحال فلا احب ان ادعو بعد فلعلہ ینقص حسناتی۔[/font]‘‘
کہ میں نے دو مرتبہ اپنے رب سے دعا ، اس نے فوراً قبول کرلی۔ اب میرا جی نہیں چاہتا کہ خدا سے دعا کروں جس سے میری نیکیوں میں کمی آجائے۔
ایک مرتبہ امام بخاری نے حدیث بیان کی تو کسی نے پوچھا: اس کے اندر اخبار کی تصریح موجود ہے؟ تو امام بخاری نے فرمایا: ]یا ابا فلان! ترانی ادلس؟ وقد ترکت عشرۃ آلاف حدیث لرجل فیہ نظر وترکت مثلہا او اکثر منہا لغیرہ لی فیہ نظر۔[/font]‘‘
مقصد یہ تھا کہ میں مدلس نہیں ہوں، یہ حدیث مسموع ہے۔ مزید فرمایا کہ میں تو سماع حدیث میں اس قدر محتاط ہوں کہ "]لرجل فیہ نظر[/font]‘‘ کی وجہ سے میں نے اس کی دس ہزار حدیثیں چھوڑ دیں۔ اتنی ہی یا اس سے زیادہ احادیث دوسرے راویوں میں علت ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیں۔ امام بخاری تدلیس نہیں کرتے تھے۔ اگر وہ کوئی اپنے شیخ سے بصیغہ قال یا عن بیان کریں تو وہ سماع پر محمول ہوگی۔
علی بن محمد بن منصور امام بخاری کے شاگرد ہیں، وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ امام بخاری کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک شخص نے امام بخاری کی داڑھی سے تنکا اٹھا کر نیچے پھینک دیا، تو امام بخاری ایک نظر سے لوگوں کو اور دوسری نظر سے تنکے کو دیکھتے تھے۔ جب دیکھا کہ لوگ اس سے غافل ہوگئے ہیں تو تنکے کو اٹھا لیا۔ جب مسجد سے باہر گئے تو اس کو باہر پھینک دیا۔ گویا انہوں نےسمجھا کہ جو چیز میری داڑھی میں نہیں رہ سکتی، وہ مسجد میں کیسے رہ سکتی ہے؟
امام بخاری کے ناصحانہ اشعار:​

امام حاکم نے اپنی تاریخ میں امام بخاری کے کچھ ناصحانہ اشعار نقل کیے ہیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری میں شعر گوئی کا ملکہ بھی موجود تھا اور اچھے شعر کہنے پر قادر تھے۔ امام حاکم نے جو اشعار نقل کیے ہیں، ان میں سے نمونہ کے طور پر چند ایک یہ ہیں:
اغتنم فِي الْفَرَاغ فضل رُكُوع فَعَسَى أَن يكون موتك بغته "]كم صَحِيح رَأَيْت من غير سقم ذهبت نَفسه الصَّحِيحَة فلته​

فارغ اوقات میں نفل نوافل کو غنیمت سمجھو ہوسکتا ہے کہ تجھے اچانک موت آجائے۔ میں نے کتنے ہی تندرست اور صحت مند لوگوں کو دیکھا ہے تندرست نفس یکایک ختم ہوا اور وہ موت کے گھاٹ اتر گیا۔
امام بخاری کی یہ نصیحت بہت مفید ہے کہ فارغ وقت اللہ کی عبادت میں گزاریں اور عجیب اتفاق ہے کہ امام بخاری کی اچانک موت ہوگئی۔ کسی کو خیال بھی نہ تھا کہ موت ہوجائے گی۔ 
مشہور محدث ابومحمد عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی جب فوت ہوئے تو اطلاع ملنے پر امام بخاری نے یہ شعر پڑھا:
؂ إِن عِشْت تفجع بالأحبة كلهم وَفناء نَفسك لَا أَبَا لَك أفجع​

اگر آپ زندہ رہتے تو آپ تمام دوستوں کا غم کھاتے اور تیرے نفس کا فنا ہونا زیادہ گھبراہٹ کن ہے۔
ان اشعار سے امام بخاری کے قادرالکلام ہونے پر بھی روشنی پڑتی ہے۔
مرآۃ البخاری از محدث نور پوری رحمہ اللہ

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔